Alikhan Riyaz

Add To collaction

پار کھی

آتش دان میں لکڑیاں سلگ رہی تھیں ورنہ وہ اس میں بھی گھس کر ضرور دیکھتا . زلفیہ جو توشا کا جھولا ہلا رہی تھی ' پریشان ہو کر ستارہ کی طرف دیکھتی جو بڑے اطمینان سے پلنگ پر بیٹھی تھی .

" گھر کے کاغذ کہاں ہیں ؟" اس نے بلا آخر اپنی زبان کھولی .

" کیسے کاغذ ؟" زلفیہ کو خاموش کراتی ستارہ بولی .

" گھر کے کاغذ ' یہ گھر رہن بھی نہیں رکھا گیا . مجھے دھوکہ دینے کی کوشش نہ کرنا ."

" یہ گھر بک چکا ہے ."

" کب ؟ کیسے ؟" اس کے منہ سے کف نکلنے لگا .

" کس نے خریدا یہ گھر ؟"

" میرے شوہر نے یہ گھر آج سے ایک سال پہلے خرید لیا تھا . "

" جھوٹ ! بالکل جھوٹ . تم نے ماں کے مرنے سے پہلے کبھی کرگت میں قدم بھی نہیں رکھا ."

" ہاں نہیں رکھا . لیکن ماں آئی تھی میرے گھر .اس نے سودا کیا تھا گھر کا ."

" میں ارسک جا رہا ہوں . اگر یہ بات جھوٹ نکلی تو یاد رکھنا واپسی پر ان دونوں کے خون سے اپنی پیاس بجھاؤں گا ." اس نے کندھے پر بندوق ٹانگتے ہوئے کہا . اس کے گھوڑے کی ٹاپوں کو سنتے ہوئے زلفیہ نے اپنے چہرے کو سختی سے ڈھانپ لیا اور تیزی سے ستارہ کی طرف آئی جو ابھی بھی مطمئن نظر آ رہی تھی . رات دونوں عورتوں نے جاگتے ہوئے گزار دی تھی . زلفیہ کی آنکھوں کے سامنے اپنی زندگی کے ماہ و سال تھے اور ستارہ اپنے نو سال کے تجربے کو اپنا یقین بناۓ جاگ رہی تھی .

حدید نے اسے دریا پر بیٹھے دکھا تھا پہلی بار . اور پھر بار بار وہ کرگت کے چکر لگانے لگا . وہ سچے موتیوں کا بیوپاری تھا . ستارہ جیسا سچا اجلا موتی بھلا وہ کیونکر چھوڑ دیتا . اس نے گاؤں کے لوگوں سے تعلق بنا کر ستارہ کے بارے میں سب معلومات لے لی تھیں . اسے پتا چل گیا تھا کہ اس موتی کے لئے اسے بہت پیچ دار جال ڈالنا پڑے گا . اس نے نذر کے بارے میں سب معلوم کر لیا تھا . اور جس دن اسے موقع ملا ' اس نے نذر کو سارا جیتا ہوا مال دے کر ستارہ کا رشتہ مانگ لیا . وہ کوئی بھی ہوتا ' نذر کو کوئی اعتراض نہیں تھا . نذر نے اپنا گناہ چھپانے کی خاطر ماں سے جھوٹ بولا کہ ستارہ ' حدید سے دریا پر ملتی ہے . ادینہ نے حدید کو دیکھتے ہی پسند کر لیا تھا اور اگر بیٹی بھی اسے پسند کرتی تھی تو بہت اچھا تھا .

صبح سورج کی دستک سے پہلے گھر کا کواڑ کھٹکھٹایا جانے لگا . زلفیہ تو مارے خوف کے بستر سے اٹھنے کی بجاۓ مزید سمٹ گئی جبکہ ستارہ مضبوط قدموں سے باہر نکل گئی . اس نے دروازہ کھول کر اس تانبے سے مرد کا استقبال کیا . اس کی مسکراہٹ کے باوجود مرد نے خیریت دریافت کی .

" تم کیسی ہو؟ بچے اور زلفیہ ؟"اس کی پریشانی ستارہ کو بہت اچھی لگی . اس نے تسلی کے انداز میں سر ہلایا اور اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں . وہ اب رو رہی تھی . بار بار اس مرد کا شکریہ ادا کرتی وہ اسے اندر لے آئ . حدید اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا . وہ سارے گھر میں چہکتی پھر رہی تھی ' جیسے ابھی کل ہی ان کا بیاہ ہوا ہو اور آج وہ اپنے میکے ملنے آئ ہو .

" ستارہ ١ اس دن تم نے کیسے کہہ دیا کہ ماں نے مکان مجھے بیچا ہے . اور جو میں کہہ دیتا نذر سے کہ ایسا کچھ نہیں ہے ."

" تم نے مجھے گھوڑے پر بٹھا کر جب میرے گرد اپنے مضبوط بازؤں کا گھیرا بنایا تھا تو میں نے جان لیا تھا کہ تم کون ہو . ماں نے کہا تھا کہ تم مجھے خوش رکھو گے . تم سچے پارکھی ہو حدید ! نذر اپنے ساتھ سارے کرگت کے جھوٹ ہی اکٹھے کر کے کیوں نہ لے جاتا ' تم حقیقت کو پرکھ لینے والے تھے ." ستارہ نے اس تانبے سے بنے مضبوط آدمی کے ہاتھ تھام کر بوسہ دے کر کہا اور مسکرا دی .

   3
1 Comments

Khan sss

29-Nov-2021 10:37 AM

Good

Reply